میری والدہ اور میری خالہ کی ایک ہی گھر میں شادی ہوئی تھی اور شادی کے چند سال بعد میری خالہ کے شوہر جو کے میرے چچا تھے ایک حادثہ میں انتقال کرگئے ان کے انتقال کے وقت میری خالہ کی دو بیٹیاں تھیں اور تیسری بیٹی انکی وفات کے چند ماہ بعد پیدا ہوئی چچا کی وفات کے بعد میری خالہ تقریبا دو سال سسرال والوں کے ساتھ رہتی رہیں گھریلو لڑائی جھگڑے کی وجہ سے وہ اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کو لے کر والدین کے گھر چلی گئیں اور دو بڑی بیٹیوں کو میری والدہ کے پاس چھوڑ گئیں جن کی پرورش کی ذمہ داری میری والدہ نے لے لی ابھی کچھ سال گزرے ہی تھے کہ میرے والد نے دوسری شادی کر لی اور دادا ابو کے گھر کو چھوڑ کر اپنی نئی بیوی کے ساتھ الگ گھر میں رہنے لگے اور میری والدہ اور ہم سب سے بس براے نام تعلق رہ گیا اور ہماری ہر طرح کی ذمےداری سے غافل ہو گئے پھر میری والدہ نے لیڈی ہیلتھ ورکر کی نوکری شروع کر دی اور اپنے سسرال والوں کے ساتھ رہتی رہیں اور میری والدہ نہ صرف میری بلکہ میری خالہ اور ان کی بیٹیوں کی بھی کفلت کرتی رہیں اور ان سب کے ساتھ ساتھ میری والدہ اور میری خالہ نے کچھ رقم جمع کرکے نانا ابو کے گھر کےقریب ایک پانچ مرلے کا پلاٹ خرید لیا اور چند سال بعد میں کچھ مزید رقم جمع کی اور کچھ رقم رشتے داروں سے قرض لے کر اسے تعمیر کر لیا اور میں اور میری خالہ کی دونوں بیٹیاں گاؤں سے لاہور آ گئے اور خالہ اور ان کی چھوٹی بیٹی کے ساتھ مل کر اپنے نئے گھر رہنے لگے اور میری والدہ گاؤں میں ہی رہتی رہیں اور اپنی نوکری جاری رکھی اور ہمارے اخراجات پورے کرتی رہی اب میں اور میری خالہ کی دونوں بڑی بیٹیاں میٹرک میں تھے اور ہم مل کر گھر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھتے تھے چچا کے انتقال کو تقریبا گیارہ برس گزر چکے تھے 2002 میں آبادی کی مین سڑک کے قریب ایک لاوارث بچہ پلاسٹک کے لفافے میں اہل محلہ کو ملا جوکہ پیدا ہوتے ہی چھوڑ دیا گیا تھا اور لوگوں نے پولیس کو فون کر کے موقع پر بلایا اور پولیس بچے کو موقع پر ہی یہ کہہ کر کہ اسے کسی یتیم خانے جمع کروا دو چھوڑ کر چلی گئی ماموں بچے کو گھر لے آئے کیوں کہ ان کوشش تھی کہ یتیم خانے سے بہتر ہے کہ کسی بے اولاد کو دے دیتے ہیں اور ہم نے کسی اچھی فیملی کی تلاش شروع کردی کیوں کہ ماموں شادی شدہ نہیں تھے اس لیے وہ بچے کو ہمارے گھر چھوڑ گئے ابھی دو یا تین دن بھی نہیں گزرے تھے کہ بچہ سخت بیمار ہو گیا اور تقریبا دو ماہ تک اس کا علاج جاری رہا جو کہ اس ننھی سی جان اور ہم سب کے لیے ایک مشکل وقت تھا میری خالہ کی تین بیٹیاں تھیں اور بیٹا کوئی بھی نہیں تھا اور میں بھی اپنی ماں کا اکلوتی اولاد تھا تو ہم سب نے فیصلہ کیا کہ ہم اس کو اپنے ساتھ رکھیں گے اور میری خالہ نے اس بچے کو گود لے لیا اور اس کا بےفرم بھی بنایا ہم نے بچے کو بہتر سہولیات فراہم کی اور اس کو بہتر تعلیم کے لیے
The Educators
dar-e-arqam ,
allied school ,
aghosh grammar school
جیسے اسکولوں میں داخل کروایا اب وہ
کلاس 9میں ہے اور اس کی عمر 16 سال دس ماہ ہے اور پچھلے دو سال سے کسی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہے اس کے ساتھ سکول سے بھاگ کر باہر گومتا رہتا تھا اور پڑھتا نہیں تھا غلط لوگوں کے ساتھ دوستیاں تھیں سگڑیٹ پیتا اور اب تو رات کو گھر دیر سے آنا کھبی نا آنا جس کی وجہ سے ہم نے اسے ہوسٹل میں ڈال دیا اور اب ہوسٹل سے بھاگ کر باہر ہوٹلوں میں راتیں گزرنے لگا ایک دن اپنی بہن کے سسرال سے اس کے شوہر کی موٹر سائیکل اور موبائل فون اور کچھ رقم چورا کر لے گیا اور ہم 6 دن تک اسے تلاش کرتے رہے اور آخر کار ایک ہوٹل میں کسی لڑکے کے ساتھ ملا اب تو جناب کار بھی چلا لیتے ہیں اور نہ تو سکول جاتے ہیں اور نہ ہی کوئی ہنر سیکھتے ہیں اور لوگوں سے کبھی رقم ادھار لینا کبھی کیمرہ کبھی کپڑے کبھی جوتے کبھی موٹر سائیکل لینا اب معمول کی بات ہے اور لوگ شکایت لے کر ہمارے دروازوں پر جمع رہتے ہیں اور اب جناب سے گھر کا کوئی بھی لاک محفوظ نہیں ہے جو بھی رقم ہاتھ لگتی ہے چوری کرلیتا ہے جب گھر سے باہر نکل جائے تو کوئی پتہ نہیں واپس کب آئے کبھی کبھار تو رات باہر گزرنا تو عام سی بات ہے اس نے ہماری زندگی اجیرن کر دی ہر لمحہ کسی نئی پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے ہم نے پیار سے غصے سے ہر طریقے سے جناب کی منت سماجت کی ہے لیکن جناب کی صحت پر کوئی عصر نہیں ہے میں تقریبا 8 سال سے ملک سے باہر ہوں اور میرے پاس ابھی تک ڈوکیومینٹس نہیں ہیں میری خالہ کا تقریبا 5 سال پہلے بلڈ کینسر کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا اور وفات سے پہلے ان کی دو بڑی بیٹیوں کی شادی کر دی تھی اور سب سے چھوٹی بیٹی کا رشتہ وہ میرے ساتھ کر گئیں تھیں اور اب میری والدہ گاؤں سے نوکری اور سسرال کے گھر کو چھوڑ کر لاہور آگئیں ہیں اور اب وہ بچہ جو خالہ نے گود لیا تھا اور ان کی چھوٹی بیٹی میری والدہ کے ساتھ اسی گھر میں ایک ساتھ رہتے ہیں اور سب میری کفلت میں ہیں میں نے ان 8 سالوں میں جو کچھ کمایا وہ سب گھر والوں کو بھیج دیا جس کی مدد سے انہوں نے تعلیم حاصل کی رہن سہن بہتر کیا پرانے گھر کو گرا کر دوبارہ تعمیر کیا ایک 5 مرلے کا پلاٹ خریدا بیٹیوں کی شادیاں کی ان کو بہتر تعلیم اور ہنر کے ساتھ اچھا جہیز دیا اور اچھے گھروں میں شادیاں کیں خالہ کی بیماری پر خرچ کیا میں نے اور میری والدہ نے جو کچھ کمایا وہ اس گھر اور اس میں رہنے والوں پر خرچ کر دیا یہاں تک کہ گھر اور پلاٹ بھی خالہ کے نام پر ہی خریدا اور اللہ تعالی کا شکر ہے کہ ہم میں آج بھی بہت محبت اور اعتماد کا رشتہ ہے لیکن ہم سب کی زندگی اس بچے کی وجہ سے بہت ذیادہ مشکل میں ہے اور ہم سب اب اس بچے کو اپنی زندگی سے بےدخل کرنا چاہتے ہیں اور اس کی ولدیت اس سے واپس لینا چاہتے ہیں اور اس کا بےفرم بھی ختم کروانا چاہتے ہیں کیوں کہ ہم نہیں چاہتے کہ اس کی وجہ سے میرے مرحوم چچا کا نام تھانہ کچہری میں لکھا جائے جبکہ وہ اس کا خون بھی نہیں ۔ برائے مہربانی مجھے اس کے قانونی طریقہ کار کے بارے میں بتائیں شکریہ
1 Comment
Gull Hassan Khan
25/12/2018
yes, in that case, you may get a declaration decree technically from the civil court. please visit our office along with documents for a detail consultation.
Write a comment: